اگر کسی بیوہ کے بچے یا پوتے نواسے ہوں تو اُس کی مدد کرنا اُن ہی کا فرض ہے۔ ہاں، وہ سیکھیں کہ خدا ترس ہونے کا پہلا فرض یہ ہے کہ ہم اپنے گھر والوں کی فکر کریں اور یوں اپنے ماں باپ، دادا دادی اور نانا نانی کو وہ کچھ واپس کریں جو ہمیں اُن سے ملا ہے، کیونکہ ایسا عمل اللہ کو پسند ہے۔
اور کہ لوگ اُس کے نیک کاموں کی اچھی گواہی دے سکیں، مثلاً کیا اُس نے اپنے بچوں کو اچھی طرح پالا ہے؟ کیا اُس نے مہمان نوازی کی اور مُقدّسین کے پاؤں دھو کر اُن کی خدمت کی ہے؟ کیا وہ مصیبت میں پھنسے ہوؤں کی مدد کرتی رہی ہے؟ کیا وہ ہر نیک کام کے لئے کوشاں رہی ہے؟
اِس کے علاوہ وہ سُست ہونے اور اِدھر اُدھر گھروں میں پھرنے کی عادی بن جاتی ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ باتونی بھی بن جاتی ہیں اور دوسروں کے معاملات میں دخل دے کر نامناسب باتیں کرتی ہیں۔
لیکن جس ایمان دار عورت کے خاندان میں بیوائیں ہیں اُس کا فرض ہے کہ وہ اُن کی مدد کرے تاکہ وہ خدا کی جماعت کے لئے بوجھ نہ بنیں۔ ورنہ جماعت اُن بیواؤں کی صحیح مدد نہیں کر سکے گی جو واقعی ضرورت مند ہیں۔
جو بزرگ جماعت کو اچھی طرح سنبھالتے ہیں اُنہیں دُگنی عزت کے لائق سمجھا جائے ۔ مَیں خاص کر اُن کی بات کر رہا ہوں جو پاک کلام سنانے اور تعلیم دینے میں محنت مشقت کرتے ہیں۔
کیونکہ کلامِ مُقدّس فرماتا ہے، ”جب تُو فصل گاہنے کے لئے اُس پر بَیل چلنے دیتا ہے تو اُس کا منہ باندھ کر نہ رکھنا۔“ یہ بھی لکھا ہے، ”مزدور اپنی مزدوری کا حق دار ہے۔“
اللہ اور مسیح عیسیٰ اور اُس کے چنیدہ فرشتوں کے سامنے مَیں سنجیدگی سے تاکید کرتا ہوں کہ اِن ہدایات کی یوں پیروی کریں کہ آپ کسی معاملے سے صحیح طور پر واقف ہونے سے پیشتر فیصلہ نہ کریں، نہ جانب داری کا شکار ہو جائیں۔
کچھ لوگوں کے گناہ صاف صاف نظر آتے ہیں، اور وہ اُن سے پہلے ہی عدالت کے تخت کے سامنے آ پہنچتے ہیں۔ لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جن کے گناہ گویا اُن کے پیچھے چل کر بعد میں ظاہر ہوتے ہیں۔